Wednesday 4 February 2015

Sabaq Amaiz

جب تو مجنوں نہیں هے ، تو تجھے کیا خبر لیلی کون هے ؟

بادشاه وقت اپنے مصاحبین کے ساتھ کہیں جا رها تها جب اس کے مصاحبین میں سے کسی نے اسے بتایا کۂ عالی جاه ! یه جو عورت ابھی ابھی آپ کے قریب سے گزری هے ، یه لیلی تھی . بادشاه نے پوچھا ، لیلی کون ؟ اسے بتایا گیا کۂ حضور ! لیلی وه عورت هے جس کی خاطر ایک شخص اپنے حوش و حواس سے بیگانه هوا پھرتا هے ، جسے لوگ مجنوں پکارتے هیں . بادشاه کو تجسس هوا ، اس نے حکم دیا ، لیلی کو حاضر کیا جائے ،
 آخر هم بھی تو دیکھیں کۂ وه کون سی حسینۂ ھے جس کی خاطر ایک شخص دنیا سے بیگانه هو گیا 

چنانچہ لیلی کو حاضر کیا گیا ، بادشاه نے دیکھا کۂ لیلی ایک سیاه فام ، عام سی عورت هے جس پر شاید کوئی دوسری نگاه ڈالنے کی بھی خواهش نه رکھے . وه لیلی سے مخاطب هوا ، اے لیلی ! مجھے تو تجھ میں کوئی خاص بات دکھائی نہیں دیتی ، پھر مجنوں تیری خاطر دیوانه کیوں هو گیا ؟ لیلی مسکرائی اور بولی ، جب تو مجنوں نہیں هے ، تو تجھے کیا خبر لیلی کون هے ؟ اگر میرا حسن و جمال دیکھنا چاهتے هو تو مجھے مجنوں کی آنکھوں سے دیکھو ، پھر تجھے میں دنیا کی سب سے حسین عورت دکھائی دوں گی .

لہذا اے میرے دوست ! جس طرح لیلی کا حسن دیکھنے کیلئے مجنوں کی آنکھیں درکار هیں اسی طرح مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم کو دیکھنے کیلئے بھی عاشق رسول کی آنکھوں کی ضرورت هے ، اگر ابو جہل کی آنکھ سے دیکھو گے تو اپنے جیسا هی دکھائی دے گا لیکن اگر عاشق رسول کی آنکھ سے دیکھو گے تو شفیع الامم جیسا کوئی دوسرا خوبیوں والا نظر هی نہیں آئے گا .

( مثنوی رومی ،حضرت جلال الدین رومی رحمته الله علیه )

____________________________________________________________
اچھی تربیت دے کر اچھا کردار لے لیں

ایک استاد نے کلاس کو متحرک کرنے , جوش اور ولولہ سے معمور کرنے کیلئے کلاس میں ایک طالب علم سے پوچھا آپ کی عمر کتنی ہے ؟
طالب علم نے جواب دیا : جناب انیس سال
استاد نے پھر سوال کیا : محمد قاسم نے جب سندھ کو فتح کیا تھا اسکی عمر کتنی تھی؟
طالب علم : سترہ سال
استاد : سکندر اعظم جب یونان کا بادشاہ بنا تو اسکی عمر کتنی تھی؟
طالب علم : تقریبا انیس سال
استاد : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کیلئے جو لشکر ترتیب دیا تھا اس کے سپہ سالار اسامہ بن زید کی عمر کیا تھی ؟
طالب علم : سترہ یا انیس سال
استاد نے طنزیہ نظروں سے کلاس کی جانب دیکھا اور سوال کیا : تمھاری عمر کتنی ہے اور تم نے اب تک کیا کیا ہے؟
طالب علم نے اعتماد سے جواب دیا : استاد محترم محمد بن قاسم کی عسکری تربیت حجاج بن یوسف جیسے سپہ سالار نے کی تھی،سکندر اعظم ارسطو فلاسفی کا شاگرد تھااور اسامہ بن زید نے خیرالبشر حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پائی تھی .
محترم مجھے بھی اچھے استاد دے دیں اور اچھی تربیت دے کر اچھا کردار لے لیں . درخت اپنے پھل سے پہچانا 
جاتا ہے.
____________________________________________________________
خواہشات سے بنا ہوا کشکول



بادشاہ نے ایک درویش سے کہا : "مانگو کیا مانگتے ہو؟" درویش نے اپنا کشکول آگے کردیا اور عاجزی سے بولا:" حضور صرف میرا کشکول بھر دیں..."بادشاہ سخاوت کے موڈ میں آیا ہوا تھا ، اس نے فوراً اپنے گلےکے ہار اتارے انگوٹھیاں اتاریں جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم ،لہٰذا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا ,انچارج ہیرے جواہرات کی تهيلى لے کر حاضر ہوا بادشاہ نےپوری تهيلى الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے،گئے کشکول بڑا ہوتا گیا، یہاں تک کہ تمام جواہرات غائب ہوگئے....بادشاہ کو بے عزتی کااحساس ہوا اس نےخزانے کہ منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔ خزانے کے بعد وزراءکی باری آئی . اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی .... لیکن کشکول خالی کا خالی رہا ۔۔ ایک ایک کر کے سارا شہر خالی ہوگیا لیکن کشکول خالی رہا... آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا، درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹایا ‘ مسکرایا‘ سلام کیا اور واپس مڑ گیا. بادشاہ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کرعرض کیا”حضور مجھے صرف اتنا بتا دیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے؟"درویش مسکرایا اور کہا ” یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے،جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے-"
---------------------------------------------------------------------------
"انسان بھی اگر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہے تو اس کی خواہشات بھی کبھی ختم نہیں ھوتیں، حتیٰ کہ اس کی موت اس کو انجام پر پہنچا دیتی ھے
____________________________________________________________
حق مہر اسلام

ایک لڑکا اپنے لیے ایک لڑکی کا رشتہ مانگنے گیا۔
لڑکی کا
باپ اُسے ملا خوش آمدید کہا اُس کی طرف دیکھا اور کہا :
.
"اس سے پہلے کہ تم کچھ کہو میں تم سے کچھ کہنا چاہتا
ہوں مجھے صرف ایک سوال کا جواب دے دو اگر تمہارا
جواب صحیح ہوا تو ہاں سمجھو وگرنہ سمجھ لو کہ مقدر میں
لکھا غالب آچکا ہے۔
.
"لڑکا اس بات سے خوش ہوتا ہے اور
کہتا ہے، "انکل آپ سوال بتائیں"باپ نے لڑکے کی آنکھوں
میں جھانکتے ہوئےسوال کیا :
.
"فجر کی اذان کب ہوتی ہے۔؟"
نوجوان حیران پریشان ہو کر
ساڑھے تین بجے، تین پچپن پر یا پونے چھے بجے یہ
جواب تھا۔
.
لڑکی کا باپ نوجوان کی طرف دیکھ کر کہتا ہے
" میری بیٹی بہت مہنگی ہے میرا خیال ہے کہ تم اسکا حق
مہر ادا نہیں کرسکتے کیونکہ اسکا حق مہر اسلام ہے۔"
.
اے اللہ
مسلمان لڑکیوں کو اچھے دیندار خاوند دے اور مسلمان
لڑکوں کو نیک بیویاں عطا فرما۔
____________________________________________________________
قصائی کی دکان ہے
شاہ جہاں اپنے علاقے کا مشہور سنار تھا ۔ پورے علاقے میں کوئی اس جیسا ماہر سنار نہیں تھا ۔ اس کے بنائے ہوئے زیور ہاتھوں ہاتھ بکتے ۔ علاقے کے مین بازار میں اس نے خوبصورت دکان بنائی ہوئی تھی ۔چونکہ اس کے گاہگ زیادہ تر شام میں ہی آتے تھے اس لیے وہ صبح کو دیر سے ہی دکان کھولتا تھا
ایک دن اپنی دکان پر آیا ہی تھا اور اپنی سیف سے زیورات نکال کر شوکیس میں لگا رہا تھا کہ ایک سائل آیا اور اس نے صدا لگائی اور خیرات کیلئے بار بار کہا۔شاہ جہاں نے تنگ آکر اور طنزاً کہا کہ کیا یہ قصائی کی دکان ہے کہ جس میں صبح صبح آمدنی ہو جاتی ہے اور کہا کہ ابھی جاؤ کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔اس نے سائل کو بری طرح دھتکار دیا ۔ بس یہ تکبر، غرور اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کی دکان پر ڈکیتی کی واردات ہوئی اور مزاحمت پر اسے قتل کر دیا گیا۔ اولادنکمی اور عیاش تھی باپ کے کاروبار کو سنبھال نہ سکی۔ حتیٰ کہ سارا کاروبار تباہ ہو گیا، دکان بند ہو گئی۔ دکان بھی ایسی بنی ہوئی تھی کہ اس کے ساتھ کی دکان علاقے میں نہیں تھی۔ سنگ مرمر لگا ہوا۔ درمیان میں سیف کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ شیشہ لگا ہوا تھا۔ پیچھے کاریگروں کے بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ جب جائیداد کی تقسیم ہوئی تو یہ دکان بڑے بیٹے کے حصہ میں آئی۔ بڑا بیٹا کچھ نہیں کرتا تھا اور اس کے دوست بھی اچھے نہیں تھے۔ بڑے بیٹے کے دوستوں میں ایک قصاب بھی تھا۔ اس نے کہا کہ دکان بند پڑی ہوئی ہے۔ مجھے کرایہ پر دے دو۔ بڑے بیٹے نے اپنے قصاب دوست کو دکان دے دی۔ اب اسی سنار کی دکان میں قصاب کی دکان ہے۔ ۔ اللہ کو غرور پسند نہ آیا۔ واقعی اسی دکان میں اب قصائی بیٹھا ہے۔شاہجہاں نے سائل کو کہا تھا کہ کیا قصائی کی دکان ہے؟ اللہ نے کر دکھایا کہ اب وہاں گوشت فروخت ہو رہا ہے
(واقعہ سچا ہے لیکن منظر نگاری اور کردار کا نام تبدیل کیا گیا ہے )
____________________________________________________________
ماں کا قرض
ایک بیٹا پڑھ لکھ کر بہت بڑا آدمی بن گیا. والد کی وفات کے بعد ماں نے ہر طرح کا کام کر کے اسے اس قابل بنا دیا تھا. شادی کے بعد بیوی کو ماں سے شکایت رہنے لگی کہ وہ ان کے اسٹیٹس میں فٹ نہیں ہے. لوگوں کو بتانے میں انہیں حجاب ہوتا کہ یہ ان پڑھ ان کی ماں - ساس ہے.
بات بڑھنے پر بیٹے نے ایک دن ماں سے کہا - "ماں .. میں چاہتا ہوں کہ میں اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ کوئی بھی قرض ادا کر سکتا ہوں. میں اور تم دونوں خوش رہیں اس لیے آج تم مجھ پر کئے گئے اب تک کے سارے اخراجات سود سمیت ملا کر بتا دو. میں وہ ادا کر دوں گا. پھر ہم الگ الگ سکھی رہیں گے.
ماں نے سوچ کر جواب دیا -"بیٹا _ حساب ذرا لمبا ہے، سوچ کر بتانا پڑے گا. مجھے تھوڑا وقت چاہیے."
بیٹے نے کہا - "ماں .... کوئی جلدي نہیں ہے. دو - چار دنوں میں بات کرنا."
رات ہوئی، سب سو گئے. ماں نے ایک لوٹے میں پانی لیا اور بیٹے کے کمرے میں آئی. بیٹا جہاں سو رہا تھا اس کے ایک طرف پانی ڈال دیا. بیٹے نے کروٹ لے لی. ماں نے دوسری طرف بھی پانی ڈال دیا. بیٹے نے جس طرف بھی کروٹ لی .. ماں اسی طرف پانی ڈالتی رہی تو پریشان ہو کر بیٹا اٹھ کر كھيج کر بولا کہ ماں یہ کیا ہے؟ میرے بستر کو پانی پانی کیوں کر ڈالا ...؟
ماں بولی -"بیٹا، تونے مجھ سے پوری زندگی کا حساب بنانے کو کہا تھا. میں ابھی یہ حساب لگا رہی تھی کہ میں نے کتنی راتیں تیرے بچپن میں تیرے بستر گیلا کر دینے سے جاگتے ہوئے كاٹي ہیں. یہ تو پہلی رات ہے اور تو ابھی سے گھبرا گیا ..؟ میں نے تو ابھی حساب شروع بھی نہیں کیا ہے جسے تو ادا کر پائے. "
ماں کی اس بات نے بیٹے کے دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا. پھر وہ رات اس نے سوچنے میں ہی گزار دی.
شاید اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ ماں کا قرض کبھی نہیں اتارا جاسکتا

____________________________________________________________
علم
ایک استاد کسی بچے کو پڑھانے کےلیئے ایک گاؤں میں جاتے تھے ایک دن اس گاؤں میں ایک شخص نے ان سے کہا : " آپ میرے بچے کو بھی پڑھادیں " ۔ استاد نے کہا : " میں بہت دور سے آتا ہوں، پہلے ہئ گھر پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے"۔ اس پر اس شخص نے کہا میں آپ کو گھوڑا دے دیتا ہوں آپ اس پر آجایا کریں"۔
استاد نے یہ بات منظور کرلی اب وہ ہر روز گھوڑے پر آنے جانے لگے پھر ایک دن اسی گاؤں کے ایک اور شخص نے اپنے بجے کو پڑھانے کی ٖفرمائیش کی۔ اس پر ایک بار پھر استاد نے عذر پیش کیا اور معافی چاہی۔ اس آدمی نے بات سن کر جواب میں کہا : " میرا بیٹا گاؤں کے سرے پر آپ کے راستے میں کھڑا ہوجایا کرے گاجب آپ وہاں پہنچے گے تو آپ کے ساتھ ساتھ چل دیا کرے گا۔ آپ راستے میں اسے سبق دے دیا کریں ، اسی طرح کا معاملا جب آپ واپس جایا کریں گے تب بھی ہوگا اور یوں وہ آپسے علم سیکھے گا۔ استاد نے یہ بات منظور کرلی وہ بچہ اسی طرح گھوڑے کے ساتھ چل کر علم حاصل کرتا رہا۔ اور وہ بچہ کوئی اور نہیں " امام غزالی رح تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ " جب تک تم اپنا سب کچھ علم کو نہیں دے ڈالو گے ، علم تمہیں اپنا کوئی حصہ نہیں دے گا۔۔

____________________________________________________________
آئی پیڈ
ایک لڑکی نے نیا آئی پیڈ خریدا،،اس کے باپ نے جب اس کے پاس نیا آئی پیڈ دیکھا تو پوچھا :
بیٹا ! اس آئی پیڈ کے خریدنے کے بعد تم نے سب سے پہلا کام کیا کیا؟
بیٹی : میں نے سب سے پہلے اس کی سکرین پر سٹیکر لگایا جو اسے خراشوں سے محفوظ رکھے اور اس کی حفاظت کے لیے ایک کور خریدا۔۔
باپ : کیا کسی نے تمہیں اس کام کے لیے مجبور کیا ؟
بیٹی : نہیں تو ۔۔
باپ : بیٹا ! نئے ٹیبلٹ کے لیے کور ؟ کیا یہ کمپنی پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں؟
بیٹی : نہیں بابا ، بلکہ کمپنی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے تو یہ کام کیا ہے۔۔
باپ : کیا یہ بیکار چیز ہے،، اس لیے تم نے اس پر کور چڑھایا ہے ؟
بیٹی : نہیں ! بلکہ اس لیے کہ اس پر خراش وغیرہ لگنے سے اس کی قیمت کم نہ ہوجائے۔۔
باپ : بیٹا ! کیا تمہارے کور چڑھانے سے یہ بد نما اور بھدا نہیں ہو گیا ؟
بیٹی : میری نظر میں تو نہیں ، اگرچہ کوئی ایساسمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ۔۔ اس کی حفاظت میری نظر میں ضروری ہے ، اسے جب بھی کور سے نکالیں گے، یہ پہلے دن کی طرح خوبصورت اور نیا نظر آئے گا۔۔
باپ نے اسے شفقت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا :
بیٹا ! یہی تو حجاب ہے ۔۔۔اسی کو تو پردہ کہتے ہیں۔۔
بیٹی کے دل میں باپ کی یہ شفقت بھری دلیل گھر کر گئی اور اس نے آئندہ نقاب کرنے کا عزم کر لیا۔۔!!

____________________________________________________________
حضرت لقمان
حضرت لقمان نے فرمایا:
جب پہلی بار عقل میرے پاس آئی تو میں نے دریافت کیا کہ " تو کون ہے"
اس نے جواب دیا:
"عقل"
میں نے پوچھا کہاں رہتی ہو؟؟
جواب ملا
"سر میں"
اس کے بعد شرم میرے پاس آئی۔ میں‌ نے پوچھا
"تو کون ہے"
اس نے جواب دیا
"شرم"
میں نے پوچھا تو کہاں رہتی ہے؟؟ اس نے جواب دیا:
"زیر چشم"
شرم کے بعد محبت آئی۔ میں اس سے بھی سوال کیا کہ "تو کون ہے؟"
اس نے جواب دیا
"مجھے محبت کہتے ہیں"
میں نے پوچھا تو کہاں رہتی ہے؟؟
اس نے جواب دیا
"دل میں رہتی ہوں"
پھر تقدیر آئی۔
میں نے اس سے یہی سوال کیا کہ "تو کون ہے؟؟"
جواب ملا "مجھے تقدیر کہتے ہیں"
میں نے پوچھا "تو کہاں رہتی ہے"
جواب دیا
"میں تو سر میں رہتی ہوں"
میں نے حیرت سےکہا۔ لیکن سر میں تو عقل کا قیام ہے۔ تقدیر نے جواب دیا
"لیکن جب میں آتی ہوں تو عقل رخصت ہو جاتی ہے"
اس کے ہٹتے ہی عشق آ گیا۔ میں پریشان ہو کر دریافت کیا
"تو کون ہے"
آشفتہ سری میں جواب ملا
"میں عشق ہوں"
میں نے اکتا کر سوال کیا "جناب کا قیام کہاں ہے؟
جواب دیا
"آنکھوں میں"
میں نے حیرت سے کہا۔ لیکن وہ تو شرم کا مقام ہے۔ کہنے لگا
"بجا ارشاد۔ لیکن جب میں آتا ہوں تو شرم رخصت ہو جاتی ہے"
سب سے آخر میں طمع آئی۔
میں نے پوچھا۔ جناب کی تعریف؟؟
"کہنے لگی۔ میں طمع ہوں۔"
آپ کا قیام؟؟
جواب دیا "دل میں"
لیکن وہاں تو محبت رہتی ہے۔
ہنس کر بولی:
"لیکن جب میں آتی ہوں تو وہ رخصت ہو جاتی ہے" ...... !! :')
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________
____________________________________________________________

0 comments:

Post a Comment